Author:ظہیر دہلوی
Appearance
ظہیر دہلوی (1835 - 1911) |
اردو شاعر |
تصانیف
[edit]غزل
[edit]- یہ سب کہنے کی باتیں ہیں ہم ان کو چھوڑ بیٹھے ہیں
- وہ نیرنگ الفت کو کیا جانتا ہے
- وہ کسی سے تم کو جو ربط تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
- وہ کس پیار سے کوسنے دے رہے ہیں
- وہ جو کچھ کچھ نگہ ملانے لگے
- وہ جھوٹا عشق ہے جس میں فغاں ہو
- واں طبیعت دم تقریر بگڑ جاتی ہے
- ان کو حال دل پر سوز سنا کر اٹھے
- تلخ شکوے لب شیریں سے مزا دیتے ہیں
- تلافی وفا کی جفا چاہتا ہوں
- ساقیا مر کے اٹھیں گے ترے مے خانے سے
- سخت دشوار ہے پہلو میں بچانا دل کا
- رقیبوں کو ہم راہ لانا نہ چھوڑا
- رنج راحت اثر نہ ہو جائے
- رنگ جمنے نہ دیا بات کو چلنے نہ دیا
- رہتا تو ہے اس بزم میں چرچا مرے دل کا
- پھٹا پڑتا ہے جوبن اور جوش نوجوانی ہے
- پان بن بن کے مری جان کہاں جاتے ہیں
- نو گرفتار قفس ہوں مجھے کچھ یاد نہیں
- نصیحت گرو دل لگایا تو ہوتا
- مرادیں کوئی پاتا ہے کسی کی جان جاتی ہے
- ملنے کا نہیں رزق مقدر سے سوا اور
- کیوں کسی سے وفا کرے کوئی
- کفر میں بھی ہم رہے قسمت سے ایماں کی طرف
- کچھ شکوے گلے ہوتے کچھ طیش سوا ہوتا
- کچھ نہ کچھ رنج وہ دے جاتے ہیں آتے جاتے
- جاتے ہو تم جو روٹھ کے جاتے ہیں جی سے ہم
- جہاں میں کون کہہ سکتا ہے تم کو بے وفا تم ہو
- عشق اور عشق شعلہ ور کی آگ
- ہاتھ سے ہیہات کیا جاتا رہا
- حسینوں میں رتبہ دوبالا ہے تیرا
- حریف راز ہیں اے بے خبر در و دیوار
- ہم نشیں ان کے طرف دار بنے بیٹھے ہیں
- ہائے اس شوخ کا انداز سے آنا شب وصل
- ہائے کافر ترے ہم راہ عدو آتا ہے
- گل افشانی کے دم بھرتی ہے چشم خوں فشاں کیا کیا
- گل ہوا یہ کس کی ہستی کا چراغ
- غوغائے پند گو نہ رہا نوحہ گر رہا
- گیسو سے عنبری ہے صبا اور صبا سے ہم
- فتنہ گر شوخی حیا کب تک
- دل کو دارالسرور کہتے ہیں
- دل کو آزار لگا وہ کہ چھپا بھی نہ سکوں
- دل گیا دل کا نشاں باقی رہا
- دے حشر کے وعدے پہ اسے کون بھلا قرض
- بتوں سے بچ کے چلنے پر بھی آفت آ ہی جاتی ہے
- بگڑ کر عدو سے دکھاتے ہیں آپ
- بھول کر ہرگز نہ لیتے ہم زباں سے نام عشق
- بزم دشمن میں جا کے دیکھ لیا
- ایسے کی محبت کو محبت نہ کہیں گے
- اے مہرباں ہے گر یہی صورت نباہ کی
- ابھی سے آ گئیں نام خدا ہیں شوخیاں کیا کیا
Works by this author published before January 1, 1929 are in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. Translations or editions published later may be copyrighted. Posthumous works may be copyrighted based on how long they have been published in certain countries and areas. |