وہ کسی سے تم کو جو ربط تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہ کسی سے تم کو جو ربط تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
by ظہیر دہلوی
299880وہ کسی سے تم کو جو ربط تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہوظہیر دہلوی

وہ کسی سے تم کو جو ربط تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ کسی پہ تھا کوئی مبتلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کبھی ہم میں تم میں بھی پیار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی ہم بھی تم بھی تھے ایک جا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ بنانا چہرہ عتاب کا وہ نہ دینا منہ سے جواب کا
وہ کسی کی منت و التجا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

تمہیں جس کی چاہ پہ ناز تھا جو تمھارا محرم راز تھا
میں وہی ہوں عاشق باوفا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کبھی ہم میں تم میں بھی ساز تھے کبھی ہم بھی وقف نیاز تھے
ہمیں یاد تھا سو جتا دیا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کبھی بولنا وہ خفا خفا کبھی بیٹھنا وہ جدا جدا
وہ زمانہ ناز و نیاز کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

ابھی تھوڑے دن کا ہے تذکرہ کہ رقیب کہتے تھے برملا
مرے آگے تم کو برا بھلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کبھی ہنس کے منہ کو چھپا لیا کبھی مسکرا کے دکھا دیا
کبھی شوخیاں تھیں کبھی حیا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

جو بنا ہے عارف با خدا یہ وہی ظہیرؔ ہے بے حیا
وہ جو رند خانہ بدوش تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse