نو گرفتار قفس ہوں مجھے کچھ یاد نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نو گرفتار قفس ہوں مجھے کچھ یاد نہیں
by ظہیر دہلوی

نو گرفتار قفس ہوں مجھے کچھ یاد نہیں
لب پہ شیون نہیں نالہ نہیں فریاد نہیں

نازنیں کوئی نئی بات تو پیدا ہو کبھی
ظلم میں لطف ہی کیا ہے اگر ایجاد نہیں

میں بشر ہوں مرے ملنے میں برائی کیا ہے
آپ کچھ حور نہیں آپ پری زاد نہیں

وائے تقدیر کہ جب خوگر آزار ہوئے
وہ یہ فرماتے ہیں ہم مائل بیداد نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse