ہم نشیں ان کے طرف دار بنے بیٹھے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہم نشیں ان کے طرف دار بنے بیٹھے ہیں
by ظہیر دہلوی

ہم نشیں ان کے طرف دار بنے بیٹھے ہیں
میرے غم خوار دل آزار بنے بیٹھے ہیں

بات کیا ان سے کروں ان کے اٹھاؤں کیوں کر
مدعی بیچ میں دیوار بنے بیٹھے ہیں

ناتوانی نے ادھر پاؤں پکڑ رکھے ہیں
وہ نزاکت سے گراں بار بنے بیٹھے ہیں

کیا بری شے ہے محبت بھی الٰہی توبہ
جرم ناکردہ خطاوار بنے بیٹھے ہیں

بے وفائی کے گلے جن کے ہوئے تھے کل تک
آج دنیا کے وفادار بنے بیٹھے ہیں

وہ ہیں اور غیر ہیں اور عیش کے سامان ظہیرؔ
ہم الگ سب سے گنہ گار بنے بیٹھے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse