دل گیا دل کا نشاں باقی رہا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل گیا دل کا نشاں باقی رہا
by ظہیر دہلوی

دل گیا دل کا نشاں باقی رہا
دل کی جا درد نہاں باقی رہا

کون زیر آسماں باقی رہا
نیک ناموں کا نشاں باقی رہا

ہو لیے دنیا کے پورے کاروبار
اور اک خواب گراں باقی رہا

رفتہ رفتہ چل بسے دل کے مکیں
اب فقط خالی مکاں باقی رہا

چل دیے سب چھوڑ کر اہل جہاں
اور رہنے کو جہاں باقی رہا

کارواں منزل پہ پہنچا عمر کا
اب غبار کارواں باقی رہا

مل گئے مٹی میں کیا کیا مہ جبیں
سب کو کھا کر آسماں باقی رہا

مٹ گئے بن بن کے کیا قصر و محل
نام کو اک لا مکاں باقی رہا

آرزو ہی آرزو میں مٹ گئے
اور شوق آستاں باقی رہا

عیش و عشرت چل بسے دل سے ظہیرؔ
درد و غم بہر نشاں باقی رہا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse