دل گیا دل کا نشاں باقی رہا
Appearance
دل گیا دل کا نشاں باقی رہا
دل کی جا درد نہاں باقی رہا
کون زیر آسماں باقی رہا
نیک ناموں کا نشاں باقی رہا
ہو لیے دنیا کے پورے کاروبار
اور اک خواب گراں باقی رہا
رفتہ رفتہ چل بسے دل کے مکیں
اب فقط خالی مکاں باقی رہا
چل دیے سب چھوڑ کر اہل جہاں
اور رہنے کو جہاں باقی رہا
کارواں منزل پہ پہنچا عمر کا
اب غبار کارواں باقی رہا
مل گئے مٹی میں کیا کیا مہ جبیں
سب کو کھا کر آسماں باقی رہا
مٹ گئے بن بن کے کیا قصر و محل
نام کو اک لا مکاں باقی رہا
آرزو ہی آرزو میں مٹ گئے
اور شوق آستاں باقی رہا
عیش و عشرت چل بسے دل سے ظہیرؔ
درد و غم بہر نشاں باقی رہا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |