بھول کر ہرگز نہ لیتے ہم زباں سے نام عشق

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بھول کر ہرگز نہ لیتے ہم زباں سے نام عشق
by ظہیر دہلوی

بھول کر ہرگز نہ لیتے ہم زباں سے نام عشق
گر نظر آتا ہمیں آغاز میں انجام عشق

واے قسمت دل لگاتے ہی جدائی ہو گئی
صبح ہوتے ہی ہوئی نازل بلائے شام عشق

ناصح ناداں تری قسمت میں یہ وقعت کہاں
خوش نصیبوں کے لیے ہے ذلت و دشنام عشق

حال میرا سن کے پیغامی سے وہ کہنے لگے
گر نہ تھی تاب جدائی کیوں لیا تھا نام عشق


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.