پھٹا پڑتا ہے جوبن اور جوش نوجوانی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پھٹا پڑتا ہے جوبن اور جوش نوجوانی ہے
by ظہیر دہلوی

پھٹا پڑتا ہے جوبن اور جوش نوجوانی ہے
وہ اب تو خودبخود جامے سے باہر ہوتے جاتے ہیں

نظر ہوتی ہے جتنی ان کو اپنے حسن صورت پر
ستم گر بے مروت کینہ پرور ہوتے جاتے ہیں

بھلا اس حسن زیبائی کا ان کے کیا ٹھکانا ہے
کہ جتنے عیب ہیں دنیا میں زیور ہوتے جاتے ہیں

ابھی ہے تازہ تازہ شوق خود بینی ابھی کیا ہے
ابھی وہ خیر سے نخوت کے خوگر ہوتے جاتے ہیں

وہ یوں بھی ماہ طلعت ہیں مگر شوخی قیامت ہے
کہ جتنے بد مزہ ہوتے ہیں خوشتر ہوتے جاتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse