پان بن بن کے مری جان کہاں جاتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پان بن بن کے مری جان کہاں جاتے ہیں
by ظہیر دہلوی

پان بن بن کے مری جان کہاں جاتے ہیں
یہ مرے قتل کے سامان کہاں جاتے ہیں

سر اگر جائے تو جائے مگر اے خنجر یار
سر سے اپنے ترے احسان کہاں جاتے ہیں

بعد مرنے کے بھی مٹی مری برباد رہی
مری تقدیر کے نقصان کہاں جاتے ہیں

حال کھلتا نہیں ان خویش فراموشوں کا
روز کے روز یہ مہمان کہاں جاتے ہیں

کس کی آشفتہ مزاجی کا خیال آیا ہے
آپ حیران پریشان کہاں جاتے ہیں

آج کس منہ سے مری دل شکنی ہوتی ہے
آج وہ آپ کے مہمان کہاں جاتے ہیں

اے ظہیرؔ اب یہ کھلا حال بڑی دور ہیں آپ
آپ جاتے ہیں جہاں دھیان کہاں جاتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse