ملنے کا نہیں رزق مقدر سے سوا اور

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ملنے کا نہیں رزق مقدر سے سوا اور
by ظہیر دہلوی

ملنے کا نہیں رزق مقدر سے سوا اور
کیا گھر میں خدا اور ہے غربت میں خدا اور

تم سامنے آتے ہو تو چھپتے ہو سوا اور
پردے کی حیا اور ہے آنکھوں کی حیا اور

کچھ آگ لگائے گا نئی شعلۂ رخسار
کچھ رنگ دکھائے گا ترا رنگ حنا اور

انسان وہ کیا جس کو نہ ہو پاس زباں کا
یہ کوئی طریقہ ہے کہا اور کیا اور

آ پہنچے ہیں منزل کی نواہی میں ظہیرؔ اب
ہاں پائے طلب ہاریو ہمت نہ ذرا اور

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse