ان کو حال دل پر سوز سنا کر اٹھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ان کو حال دل پر سوز سنا کر اٹھے
by ظہیر دہلوی

ان کو حال دل پر سوز سنا کر اٹھے
اور دو چار کے گھر آگ لگا کر اٹھے

تم نے پہلو میں مرے بیٹھ کے آفت ڈھائی
اور اٹھے بھی تو اک حشر اٹھا کر اٹھے

وعدۂ وصل سے ہے نعش پہ آنے کی امید
مژدۂ قتل مرا مجھ کو سنا کر اٹھے

منہ چھپانے میں تو ہے شرم و حیا کا پردہ
ہاں مگر دل بھی نگہ تھا کہ چرا کر اٹھے

آج آئے تھے گھڑی بھر کو ظہیرؔ ناکام
آپ بھی روئے ہمیں ساتھ رلا کر اٹھے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.