وہ کس پیار سے کوسنے دے رہے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہ کس پیار سے کوسنے دے رہے ہیں
by ظہیر دہلوی

وہ کس پیار سے کوسنے دے رہے ہیں
بلائیں عداوت کی ہم لے رہے ہیں

پڑے ہیں وہ عشرت کدے آج ویراں
جہاں یار لوگوں کے جلسے رہے ہیں

برے اور اچھوں کے ہیں ذکر باقی
برے ہی رہے ہیں نہ اچھے رہے ہیں

پیامی سے کہتے ہیں کس نے کہا تھا
وہ کیوں رات بھر یوں تڑپتے رہے ہیں

زباں تھک گئی کوسنے دیتے دیتے
بس اب خیر سے چٹکیاں لے رہے ہیں

نئے داغ کھائے ہیں کیا آج دل پر
یہ گل تو ہمیشہ ہی کھلتے رہے ہیں

جہاں مل کے بیٹھے ہیں دو چار ہم سن
ہمارے تمہارے ہی چرچے رہے ہیں

ظہیرؔ آہ دن زندگانی کے اپنے
بہت جا چکے اور تھوڑے رہے ہیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.