گل ہوا یہ کس کی ہستی کا چراغ
Appearance
گل ہوا یہ کس کی ہستی کا چراغ
مدعی کے گھر جلا گھی کا چراغ
خیر سے رہتا ہے روشن نام نیک
حشر تک جلتا ہے نیکی کا چراغ
وہ حقیقت ہے دل افسردہ کی
ٹمٹمائے جیسے سردی کا چراغ
ہم سے روشن ہے تمہاری بزم یوں
ناگوارا جیسے گرمی کا چراغ
ہو قناعت تجھ کو تو بس ہے ظہیرؔ
خانہ آرائی کو دمڑی کا چراغ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |