گل ہوا یہ کس کی ہستی کا چراغ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گل ہوا یہ کس کی ہستی کا چراغ
by ظہیر دہلوی

گل ہوا یہ کس کی ہستی کا چراغ
مدعی کے گھر جلا گھی کا چراغ

خیر سے رہتا ہے روشن نام نیک
حشر تک جلتا ہے نیکی کا چراغ

وہ حقیقت ہے دل افسردہ کی
ٹمٹمائے جیسے سردی کا چراغ

ہم سے روشن ہے تمہاری بزم یوں
ناگوارا جیسے گرمی کا چراغ

ہو قناعت تجھ کو تو بس ہے ظہیرؔ
خانہ آرائی کو دمڑی کا چراغ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse