رقیبوں کو ہم راہ لانا نہ چھوڑا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رقیبوں کو ہم راہ لانا نہ چھوڑا
by ظہیر دہلوی

رقیبوں کو ہم راہ لانا نہ چھوڑا
نہ چھوڑا مرا جی جلانا نہ چھوڑا

بلائیں ہی لے لے کے کاٹی شب وصل
ستم گار نے منہ چھپانا نہ چھوڑا

وہ کہتے ہیں لے اب تو سونے دے مجھ کو
کوئی دل میں ارماں پرانا نہ چھوڑا

وہ سینے سے لپٹے رہے گو شب وصل
دل زار نے تلملانا نہ چھوڑا

محبت کے برتاؤ سب چھوڑ بیٹھے
مگر ہاں ستانا جلانا نہ چھوڑا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.