جاتے ہو تم جو روٹھ کے جاتے ہیں جی سے ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جاتے ہو تم جو روٹھ کے جاتے ہیں جی سے ہم
by ظہیر دہلوی

جاتے ہو تم جو روٹھ کے جاتے ہیں جی سے ہم
تم کیا خفا ہو خود ہیں خفا زندگی سے ہم

کچھ ایسے بدحواس ہیں دل کی لگی سے ہم
کہتے ہیں مدعائے دل مدعی سے ہم

بے زار ہو چکے ہیں بہت دل لگی سے ہم
بس ہو تو عمر بھر نہ ملیں اب کسی سے ہم

یہ جانتے تو شکوے نہ کرتے رقیب کے
کہتے ہیں تیری ضد سے ملیں گے اسی سے ہم

مجرم ہے کون دونوں میں انصاف کیجیے
چھپ چھپ کے آپ ملتے ہیں یا مدعی سے ہم

ہم اور چاہ غیر کی اللہ سے ڈرو
ملتے ہیں تم سے بھی تو تمہاری خوشی سے ہم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse