وہ جھوٹا عشق ہے جس میں فغاں ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہ جھوٹا عشق ہے جس میں فغاں ہو
by ظہیر دہلوی

وہ جھوٹا عشق ہے جس میں فغاں ہو
وہ کچی آگ ہے جس میں دھواں ہو

عدو تم سے تم ان سے بدگماں ہو
تمھارے وہ تم ان کے پاسباں ہو

بھلا تم اور مجھ پر مہرباں ہو
عنایت یہ نصیب دشمناں ہو

مرا حال اور پھر میرا بیاں ہو
عجب کیا گر عدو بھی ہم زباں ہو

کہیں کس سے خودی میں تم کہاں ہو
گلہ جب ہو کہ قابو میں زباں ہو

تمھاری بے رخی شکوے ہمارے
قیامت تک نہ پوری داستاں ہو

زباں بہکی ہوئی حیراں نگاہیں
خیال دل کہاں ہے تم کہاں ہو

مزہ جب آئے ان سے گفتگو کا
پیامی کا دہن میری زباں ہو

کشیدہ کیوں نہ ہو بازار یوسف
کہ جب تم سا متاع کارواں ہو

کہوں کیا راز دل کیوں کر ہو باور
کہ تم سا ہی تمھارا رازداں ہو

ابھی سے کس لیے دل چھوڑ بیٹھیں
جہاں تک ہو سکے آہ و فغاں ہو


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.