کچھ شکوے گلے ہوتے کچھ طیش سوا ہوتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کچھ شکوے گلے ہوتے کچھ طیش سوا ہوتا
by ظہیر دہلوی

کچھ شکوے گلے ہوتے کچھ طیش سوا ہوتا
قسمت میں نہ ملنا تھا ملتے بھی تو کیا ہوتا

جاتے تو قلق ہوتا آتے تو خفا ہوتے
ہم جاتے تو کیا ہوتا وہ آتے تو کیا ہوتا

شکوؤں کا گلا کیا ہے انصاف تو کر ظالم
کیا کچھ نہ کیا ہوتا گر تو میری جا ہوتا

گر صلح ٹھہر جاتی سو فتنے اٹھے ہوتے
اچھا ہے نہ ملنا ہی ملتے تو برا ہوتا

سوچو تو ظہیرؔ آخر وہ جور تو کرتا ہے
میں اس سے گلا کر کے محروم جفا ہوتا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse