ایسے کی محبت کو محبت نہ کہیں گے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ایسے کی محبت کو محبت نہ کہیں گے
by ظہیر دہلوی

ایسے کی محبت کو محبت نہ کہیں گے
اس عام عنایت کو عنایت نہ کہیں گے

کہئے تو کہوں انجمن غیر کو روداد
کیا اب بھی اسے آپ کرامت نہ کہیں گے

سمجھیں گے نہ اغیار کو اغیار کہاں تک
کب تک وہ محبت کو محبت نہ کہیں گے

جب عربدہ جو تم ہو تو کیوں صبر سمیٹیں
ہم اس میں رقیبوں کی شرارت نہ کہیں گے

ہے یاد ظہیرؔ ان کا شب وصل بگڑنا
وہ تلخیٔ دشنام کی لذت نہ کہیں گے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.