تلخ شکوے لب شیریں سے مزا دیتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تلخ شکوے لب شیریں سے مزا دیتے ہیں
by ظہیر دہلوی

تلخ شکوے لب شیریں سے مزا دیتے ہیں
گھول کر شہد میں وہ زہر پلا دیتے ہیں

یوں تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں

پردہ اٹھے کہ نہ اٹھے مگر اے پردہ نشیں
آج ہم رسم تکلف کو اٹھا دیتے ہیں

آتے جاتے نہیں کمبخت پیامی ان تک
جھوٹے سچے یوں ہی پیغام سنا دیتے ہیں

وائے تقدیر کہ وہ خط مجھے لکھ لکھ کے ظہیرؔ
میری تقدیر کے لکھے کو مٹا دیتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse