Jump to content

گیسو سے عنبری ہے صبا اور صبا سے ہم

From Wikisource
گیسو سے عنبری ہے صبا اور صبا سے ہم
by ظہیر دہلوی
300048گیسو سے عنبری ہے صبا اور صبا سے ہمظہیر دہلوی

گیسو سے عنبری ہے صبا اور صبا سے ہم
مہکی ہوئی ہے آج ہوا اور ہوا سے ہم

شوخی سے ایک جا تجھے دم بھر نہیں قرار
بے چین تجھ سے تیری ادا اور ادا سے ہم

آرائشوں سے کشتن عاشق مراد ہے
ہوتی ہے پائمال حنا اور حنا سے ہم

ہم سے وصال میں بھی ہوئے وہ نہ بے حجاب
لپٹی رہی بدن سے ردا اور ردا سے ہم

کس منہ سے ہاتھ اٹھائیں فلک کی طرف ظہیرؔ
مایوس ہے اثر سے دعا اور دعا سے ہم


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.