Author:حسرت موہانی
Appearance
حسرت موہانی (1875 - 1951) |
اردو شاعر |
تصانیف
[edit]غزل
[edit]- آپ نے قدر کچھ نہ کی دل کی
- آسان حقیقی ہے نہ کچھ سہل مجازی
- آنکھوں کو انتظار سے گرویدہ کر چلے
- اپنا سا شوق اوروں میں لائیں کہاں سے ہم
- اس بت کے پجاری ہیں مسلمان ہزاروں
- ان کو جو شغل ناز سے فرصت نہ ہو سکی
- اور بھی ہو گئے بیگانہ وہ غفلت کر کے
- اور تو پاس مرے ہجر میں کیا رکھا ہے
- بام پر آنے لگے وہ سامنا ہونے لگا
- بت بے درد کا غم مونس ہجراں نکلا
- بدل لذت آزار کہاں سے لاؤں
- برکتیں سب ہیں عیاں دولت روحانی کی
- بس کہ نکلی نہ کوئی جی کی ہوس
- بھلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں
- بیکلی سے مجھے راحت ہوگی
- پھر بھی ہے تم کو مسیحائی کا دعویٰ دیکھو
- پیرو مسلک تسلیم و رضا ہوتے ہیں
- پیہم دیا پیالۂ مے برملا دیا
- تاباں جو نور حسن بہ سیمائے عشق ہے
- تاثیر برق حسن جو ان کے سخن میں تھی
- تجھ سے گرویدہ یک زمانہ رہا
- ترے درد سے جس کو نسبت نہیں ہے
- توڑ کر عہد کرم نا آشنا ہو جائیے
- جہاں تک ہم ان کو بہلاتے رہے ہیں
- جو وہ نظر بسر لطف عام ہو جائے
- چاہت مری چاہت ہی نہیں آپ کے نزدیک
- چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
- چھپ کے اس نے جو خود نمائی کی
- حائل تھی بیچ میں جو رضائی تمام شب
- حسن بے پروا کو خودبین و خود آرا کر دیا
- حسن بے مہر کو پروائے تمنا کیا ہو
- خو سمجھ میں نہیں آتی ترے دیوانوں کی
- خوب رویوں سے یاریاں نہ گئیں
- درد دل کی انہیں خبر نہ ہوئی
- دعا میں ذکر کیوں ہو مدعا کا
- دل کو خیال یار نے مخمور کر دیا
- دل میں کیا کیا ہوس دید بڑھائی نہ گئی
- دیدنی ہیں دل خراب کے رنگ
- دیکھنا بھی تو انہیں دور سے دیکھا کرنا
- رسمِ جفا کامیاب ، دیکھئیے ، کب تک رہے
- رنگ لایا ہے ہجوم ساغر و پیمانہ آج
- روش حسن مراعات چلی جاتی ہے
- روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام
- سب سے چھپتے ہیں چھپیں، مجھ سے تو پردا نہ کریں
- ستم ہو جائے تمہید کرم ایسا بھی ہوتا ہے
- سیہ کار تھے باصفا ہو گئے ہم
- عقل سے حاصل ہوئی کیا کیا پشیمانی مجھے
- فیض محبت سے ہے قید محن
- قسمت شوق آزما نہ سکے
- قوی دل شادماں دل پارسا دل
- کیا تم کو علاج دل شیدا نہیں آتا
- کیا کام انہیں پرسش ارباب وفا سے
- کیا وہ اب نادم ہیں اپنے جور کی روداد سے
- کیا یا کام انہیں پرسشِ اربابِ وفا سے
- کیسے چھپاؤں رازِ غم، دیدۂ تر کو کیا کروں
- گھٹے گا تیرے کوچے میں وقار آہستہ آہستہ
- لطف کی ان سے التجا نہ کریں
- محروم طرب ہے دل دلگیر ابھی تک
- مستی کے پھر آ گئے زمانے
- مقرر کچھ نہ کچھ اس میں رقیبوں کی بھی سازش ہے
- نظارۂ پیہم کا صلا میرے لیے ہے
- نظر پھر نہ کی اس پہ دل جس کا چھینا
- نگاہ یار جسے آشنائے راز کرے
- نہ سمجھے دل فریب آرزو کو
- نہ سہی گر انہیں خیال نہیں
- نہ صورت کہیں شادمانی کی دیکھی
- ہر حال میں رہا جو ترا آسرا مجھے
- ہم عاشق فاسق تھے ہم صوفی صافی ہیں
- ہم نے کس دن ترے کوچے میں گزارا نہ کیا
- ہمیں وقف غم سر بسر دیکھ لیتے
- ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
- وصل کی بنتی ہیں ان باتوں سے تدبیریں کہیں
- وہ چپ ہو گئے مجھ سے کیا کہتے کہتے
- وہ قامتِ بلند نہیں در قبائے ناز
- یاد کر وہ دن کہ تیرا کوئی سودائی نہ تھا
- یاد ہیں سارے وہ عیشِ با فراغت کے مزے
- یوں تو عاشق ترا زمانہ ہوا
نظم
[edit]نعت
[edit]
Some or all works by this author are now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |