ان کو جو شغل ناز سے فرصت نہ ہو سکی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ان کو جو شغل ناز سے فرصت نہ ہو سکی
by حسرت موہانی

ان کو جو شغل ناز سے فرصت نہ ہو سکی
ہم نے یہ کہہ دیا کہ محبت نہ ہو سکی

شکر جفا بھی اہل رضا نے کیا ادا
ان سے یہی نہیں کہ شکایت نہ ہو سکی

شب کا یہ حال ہے کہ تری یاد کے سوا
دل کو کسی خیال سے راحت نہ ہو سکی

پابوس کی بھی ہم کو اجازت نہ دے سکے
اتنی بھی تم سے قدر محبت نہ ہو سکی

غرق سرور و سور مجھے پا کے دفعتاً
ناصح سے ترک مے کی نصیحت نہ ہو سکی

خاموشیوں کا راز محبت وہ پا گئے
گو ہم سے عرض حال کی جرأت نہ ہو سکی

کر دی زبان شوق نے سب شرح آرزو
الفاظ میں اگرچہ صراحت نہ ہو سکی

لطف مزید کی میں تمنا تو کر سکا
تم یہ تو کہہ سکے کہ قناعت نہ ہو سکی

کیوں اتنی جلد ہو گئے گھبرا کے ہم فنا
اے درد یار کچھ تری خدمت نہ ہو سکی

واعظ کو اپنے عیب ریا کا رہا خیال
رندوں کی صاف صاف مذمت نہ ہو سکی

ارباب قال حال پہ غالب نہ آ سکے
زاہد سے عاشقوں کی امامت نہ ہو سکی

ایسا بھی کیا عتاب کہ ساقی بچی کھچی
آخر میں کچھ بھی ہم کو عنایت نہ ہو سکی

ان سے میں اپنے دل کا تقاضا نہ کر سکا
یہ بات تھی خلاف مروت نہ ہو سکی

کیوں آئے ہوش میں جو عبادت نہ کر سکے
پیر مغاں کی ہم سے اطاعت نہ ہو سکی

حسرتؔ تری نگاہ محبت کو کیا کہوں
محفل میں رات ان سے شرارت نہ ہو سکی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse