توڑ کر عہد کرم نا آشنا ہو جائیے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
توڑ کر عہد کرم نا آشنا ہو جائیے
by حسرت موہانی

توڑ کر عہد کرم نا آشنا ہو جائیے
بندہ پرور جائیے اچھا خفا ہو جائیے

میرے عذر جرم پر مطلق نہ کیجے التفات
بلکہ پہلے سے بھی بڑھ کر کج ادا ہو جائیے

خاطر محروم کو کر دیجئے محو الم
درپئے ایذائے جان مبتلا ہو جائیے

راہ میں ملیے کبھی مجھ سے تو از راہ ستم
ہونٹ اپنا کاٹ کر فوراً جدا ہو جائیے

گر نگاہ شوق کو محو تماشا دیکھیے
قہر کی نظروں سے مصروف سزا ہو جائیے

میری تحریر ندامت کا نہ دیجے کچھ جواب
دیکھ لیجے اور تغافل آشنا ہو جائیے

مجھ سے تنہائی میں گر ملیے تو دیجے گالیاں
اور بزم غیر میں جان حیا ہو جائیے

ہاں یہی میری وفائے بے اثر کی ہے سزا
آپ کچھ اس سے بھی بڑھ کر پر جفا ہو جائیے

جی میں آتا ہے کہ اس شوخ تغافل کیش سے
اب نہ ملیے پھر کبھی اور بے وفا ہو جائیے

کاوش درد جگر کی لذتوں کو بھول کر
مائل آرام و مشتاق شفا ہو جائیے

ایک بھی ارماں نہ رہ جائے دل مایوس میں
یعنی آخر بے نیاز مدعا ہو جائیے

بھول کر بھی اس ستم پرور کی پھر آئے نہ یاد
اس قدر بیگانۂ عہد وفا ہو جائیے

ہائے ری بے اختیاری یہ تو سب کچھ ہو مگر
اس سراپا ناز سے کیونکر خفا ہو جائیے

چاہتا ہے مجھ کو تو بھولے نہ بھولوں میں تجھے
تیرے اس طرز تغافل کے فدا ہو جائیے

کشمکش ہائے الم سے اب یہ حسرتؔ جی میں ہے
چھٹ کے ان جھگڑوں سے مہمان قضا ہو جائیے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse