تاباں جو نور حسن بہ سیمائے عشق ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تاباں جو نور حسن بہ سیمائے عشق ہے
by حسرت موہانی

تاباں جو نور حسن بہ سیمائے عشق ہے
کس درجہ دل پذیر تماشائے عشق ہے

ارباب ہوش جتنے ہیں بیمار عقل ہیں
ان کے لیے ضرور مداوائے عشق ہے

میں کیا ہوں ایک ذرۂ صحرائے اشتیاق
دل کیا ہے ایک قطرۂ دریائے عشق ہے

شاہ و گدا کا فرق نہیں عہد حسن میں
اب جس کو دیکھیے اسے دعوائے عشق ہے

ظاہر ہے بے قرارئ پیہم سے حال دل
بے کار ہم کو دعوائے اخفائے عشق ہے

پنہاں حجاب ناز میں ہے صورت جمال
پیدا حروف شوق سے معنائے عشق ہے

اے اہل عقل کیوں ہو اسے فکر نام و ننگ
حسرتؔ خراب عشق ہے رسوائے عشق ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse