اور بھی ہو گئے بیگانہ وہ غفلت کر کے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اور بھی ہو گئے بیگانہ وہ غفلت کر کے
by حسرت موہانی

اور بھی ہو گئے بیگانہ وہ غفلت کر کے
آزمایا جو انہیں ضبط محبت کر کے

دل نے چھوڑا ہے نہ چھوڑے ترے ملنے کا خیال
بارہا دیکھ لیا ہم نے ملامت کر کے

دیکھنے آئے تھے وہ اپنی محبت کا اثر
کہنے کو یہ ہے کہ آئے ہیں عیادت کر کے

پستئ حوصلۂ شوق کی اب ہے یہ صلاح
بیٹھ رہئے غم ہجراں پہ قناعت کر کے

دل نے پایا ہے محبت کا یہ عالی رتبہ
آپ کے درد دواکار کی خدمت کر کے

روح نے پائی ہے تکلیف جدائی سے نجات
آپ کی یاد کو سرمایۂ راحت کر کے

چھیڑ سے اب وہ یہ کہتے ہیں کہ سنبھلو حسرتؔ
صبر و تاب دل بیمار کو غارت کر کے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse