پھر بھی ہے تم کو مسیحائی کا دعویٰ دیکھو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پھر بھی ہے تم کو مسیحائی کا دعویٰ دیکھو
by حسرت موہانی

پھر بھی ہے تم کو مسیحائی کا دعویٰ دیکھو
مجھ کو دیکھو مرے مرنے کی تمنّا دیکھو

جرمِ نظارہ پہ کون اتنی خوشامد کرتا
اب وہ روٹھے ہیں لو اور تماشا دیکھو

دو ہی دن میں وہ بات ہے نہ وہ چاہ نہ پیار
ہم نے پہلے ہی یہ تم سے نہ کہا تھا دیکھو؟

ہم نا کہتے تھے بناوٹ سے ہے سارا غصّہ
ہنس کے لو پھر انھوں نے ہمیں دیکھا دیکھو

مستیِ حسن سے اپنی بھی نہیں تم کو خبر
کیا سنو عرض میری،حال میرا کیا دیکھو

گھر سے ہر وقت نکل آتے ہو کھولے ہوئے بال
شام دیکھو نہ میری جان سویرا دیکھو

خانۂ جان میں نمودار ہے اک پیکرِ نور
حسرتو آؤ رخِ یار کا جلوہ دیکھو

سامنے سب کے مناسب نہیں ہم پر یہ عتاب
سر سے ڈھل جائے نہ غصّے میں‌ ڈوپٹہ دیکھو

مر مٹے ہم تو کبھی یاد بھی تم نے نہ کیا
اب محبّت کا نہ کرنا کبھی دعویٰ دیکھو

دوستو ترکِ محبّت کی نصیحت ہے فضول
اور نہ مانو تو دلِ زار کو سمجھا دیکھو

سر کہیں،بال کہیں،ہاتھ کہیں‌،پاؤں کہیں
اس کا سونا بھی ہے کس شان کا سونا دیکھو

اب وہ شوخی سے یہ کہتے ہیں ستمگر جو ہیں‌ہم
دل کسی اور سے کچھ روز بہلا دیکھو

ہوَسِ دل مٹی ہے نہ مٹے گی حسرت
دیکھنے کے لیئے چاہو انہیں جتنا دیکھو

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse