دل میں کیا کیا ہوس دید بڑھائی نہ گئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل میں کیا کیا ہوس دید بڑھائی نہ گئی
by حسرت موہانی

دل میں کیا کیا ہوس دید بڑھائی نہ گئی
روبرو ان کے مگر آنکھ اٹھائی نہ گئی

ہم رضا شیوہ ہیں تاویل ستم خود کر لیں
کیا ہوا ان سے اگر بات بنائی نہ گئی

یہ بھی آداب محبت نے گوارا نہ کیا
ان کی تصویر بھی آنکھوں سے لگائی نہ گئی

آہ وہ آنکھ جو ہر سمت رہی صاعقہ پاش
وہ جو مجھ سے کسی عنوان ملائی نہ گئی

ہم سے پوچھا نہ گیا نام و نشاں بھی ان کا
جستجو کی کوئی تمہید اٹھائی نہ گئی

دل کو تھا حوصلۂ عرض تمنا سو انہیں
سرگزشت شب ہجراں بھی سنائی نہ گئی

غم دوری نے کشاکش تو بہت کی لیکن
یاد ان کی دل حسرتؔ سے بھلائی نہ گئی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse