اپنا سا شوق اوروں میں لائیں کہاں سے ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اپنا سا شوق اوروں میں لائیں کہاں سے ہم
by حسرت موہانی

اپنا سا شوق اوروں میں لائیں کہاں سے ہم
گھبرا گئے ہیں بے دلئ ہم رہاں سے ہم

کچھ ایسی دور بھی تو نہیں منزل مراد
لیکن یہ جب کہ چھوٹ چلیں کارواں سے ہم

اے یاد یار دیکھ کہ باوصف رنج ہجر
مسرور ہیں تری خلش ناتواں سے ہم

معلوم سب ہے پوچھتے ہو پھر بھی مدعا
اب تم سے دل کی بات کہیں کیا زباں سے ہم

اے زہد خشک تیری ہدایت کے واسطے
سوغات عشق لائے ہیں کوئے بتاں سے ہم

بیتابیوں سے چھپ نہ سکا حال آرزو
آخر بچے نہ اس نگہ بدگماں سے ہم

پیرانہ سر بھی شوق کی ہمت بلند ہے
خواہان کام جاں ہیں جو اس نوجواں سے ہم

مایوس بھی تو کرتے نہیں تم ز راہ ناز
تنگ آ گئے ہیں کشمکش امتحاں سے ہم

خلوت بنے گی تیرے غم جاں نواز کی
لیں گے یہ کام اپنے دل شادماں سے ہم

ہے انتہائے یاس بھی اک ابتدائے شوق
پھر آ گئے وہیں پہ چلے تھے جہاں سے ہم

حسرتؔ پھر اور جا کے کریں کس کی بندگی
اچھا جو سر اٹھائیں بھی اس آستاں سے ہم

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse