جو وہ نظر بسر لطف عام ہو جائے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جو وہ نظر بسر لطف عام ہو جائے
by حسرت موہانی

جو وہ نظر بسر لطف عام ہو جائے
عجب نہیں کہ ہمارا بھی کام ہو جائے

شراب شوق کی قیمت ہے نقد جان عزیز
اگر یہ باعث کیف دوام ہو جائے

رہین یاس رہیں اہل آرزو کب تک
کبھی تو آپ کا دربار عام ہو جائے

جو اور کچھ ہو تری دید کے سوا منظور
تو مجھ پہ خواہش جنت حرام ہو جائے

وہ دور ہی سے ہمیں دیکھ لیں یہی ہے بہت
مگر قبول ہمارا سلام ہو جائے

اگر وہ حسن دل آرا کبھی ہو جلوہ فروش
فروغ نور میں گم ظرف بام ہو جائے

سنا ہے برسر بخشش ہے آج پیر مغاں
ہمیں بھی کاش عطا کوئی جام ہو جائے

ترے کرم پہ ہے موقوف کامرانی شوق
یہ ناتمام الٰہی تمام ہو جائے

ستم کے بعد کرم ہے جفا کے بعد عطا
ہمیں ہے بس جو یہی التزام ہو جائے

عطا ہو سوز وہ یا رب جنون حسرتؔ کو
کہ جس سے پختہ یہ سودائے خام ہو جائے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse