کیسے چھپاؤں رازِ غم، دیدۂ تر کو کیا کروں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیسے چھپاؤں رازِ غم، دیدۂ تر کو کیا کروں
by حسرت موہانی

کیسے چھپاؤں رازِ غم، دیدۂ تر کو کیا کروں
دل کی تپش کو کیا کروں، سوزِ جگر کو کیا کروں

غیر ہے گرچہ ہمنشیں، بزم میں ہے تو وہ حسیں
پھر مجھے لے چلا وہیں، ذوقِ نظر کو کیا کروں

شورشِ‌ عاشقی کہاں، اور مری سادگی کہاں
حُسن کو تیرے کیا کہوں، اپنی نظر کو کیا کروں

غم کا نہ دل میں‌ ہو گزر، وصل کی شب ہو یوں بسر
سب یہ قبول ہے مگر، خوفِ سحر کو کیا کروں

حال میرا تھا جب بتر، تب نہ ہوئی تمہیں خبر
بعد مرے ہوا اثر، اب میں‌ اثر کو کیا کروں

دل کی ہوس مٹا تو دی، ان کی جھلک دکھا تو دی
پر یہ کہو کہ شوق کی “بارِ دگر” کو کیا کروں

حسرتِ نغز گو ترا، کوئی نہ قدرداں ملا
اب یہ بتا کہ میں ترے ، عرضِ ہنر کو کیا کروں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse