پیرو مسلک تسلیم و رضا ہوتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پیرو مسلک تسلیم و رضا ہوتے ہیں
by حسرت موہانی

پیرو مسلک تسلیم و رضا ہوتے ہیں
ہم تیری راہ محبت میں فنا ہوتے ہیں

شرم کر شرم کہ اے جذبۂ تاثیر وفا
تیرے ہاتھوں وہ پشیمان جفا ہوتے ہیں

چھیڑتی ہے مجھے بیباکئ خواہش کیا کیا
جب کبھی ہاتھ وہ پابند حنا ہوتے ہیں

نہ اثر آہ میں کچھ ہے نہ دعا میں تاثیر
تیر ہم جتنے چلاتے ہیں خطا ہوتے ہیں

اہل دل سنتے ہیں اک ساز محبت کی نوا
ہم تری یاد میں جب نغمہ سرا ہوتے ہیں

لذت درد نہ کیوں اہل ہوس پر ہو حرام
کہ وہ کم بخت طلب گار دوا ہوتے ہیں

کشور عشق میں دنیا سے نرالا ہے رواج
کام جو بن نہ پڑیں یاں وہ روا ہوتے ہیں

ہیچ ہم سمجھے دو عالم کو تو حیرت کیا ہے
رتبے عشاق کے اس سے بھی سوا ہوتے ہیں

جسم ہوتا ہے جدا جان سے گویا حسرتؔ
آسماں ان سے چھڑاتا ہے جدا ہوتے ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse