دعا میں ذکر کیوں ہو مدعا کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دعا میں ذکر کیوں ہو مدعا کا
by حسرت موہانی

دعا میں ذکر کیوں ہو مدعا کا
کہ یہ شیوہ نہیں اہل رضا کا

طلب میری بہت کچھ ہے، مگر کیا
کرم تیرا ہے اک دریا عطا کا

کہاں تک ناز اٹھائے آخر اے حسن
ہوس تیرے مزاج خود ستا کا

نہیں معلوم کیا اے شاہ خوباں
تجھے کچھ حال اپنے مبتلا کا

بجائے اسم اعظم آپ کا نام
وظیفہ ہے مرا صبح و مسا کا

غضب کا سامنا ہے عاشقوں کو
دیار حق میں افواج بلا کا

نثار ان پر ہوئے اچھے رہے ہم
تقاضا تھا یہی خوئے وفا کا

گنہ گارو چلو عفو الٰہی
بہت مشتاق ہے عرض خطا کا

تری محفل میں اہل دل کو جلوہ
نظر آ جائے گا شان خدا کا

اٹھایا ہے مزا دل نے بہت کچھ
محبت کے غم راحت فزا کا

جفا کو بھی وفا سمجھو کہ حسرتؔ
تمہیں حق ان سے کیا چون و چرا کا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse