دیکھنا بھی تو انہیں دور سے دیکھا کرنا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دیکھنا بھی تو انہیں دور سے دیکھا کرنا
by حسرت موہانی

دیکھنا بھی تو انہیں دور سے دیکھا کرنا
شیوۂ عشق نہیں حسن کو رسوا کرنا

اک نظر بھی تری کافی تھی پئے راحت جاں
کچھ بھی دشوار نہ تھا مجھ کو شکیبا کرنا

ان کو یاں وعدے پہ آ لینے دے اے ابر بہار
جس قدر چاہنا پھر بعد میں برسا کرنا

شام ہو یا کہ سحر یاد انہیں کی رکھنی
دن ہو یا رات ہمیں ذکر انہیں کا کرنا

صوم زاہد کو مبارک رہے عابد کو صلوٰۃ
عاصیوں کو تری رحمت پہ بھروسا کرنا

عاشقو حسن جفاکار کا شکوہ ہے گناہ
تم خبردار خبردار نہ ایسا کرنا

کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کیا ہے حسرتؔ
ان سے مل کر بھی نہ اظہار تمنا کرنا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse