سیہ کار تھے باصفا ہو گئے ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سیہ کار تھے باصفا ہو گئے ہم
by حسرت موہانی

سیہ کار تھے باصفا ہو گئے ہم
ترے عشق میں کیا سے کیا ہو گئے ہم

نہ جانا کہ شوق اور بھڑکے گا میرا
وہ سمجھے کہ اس سے جدا ہو گئے ہم

دم واپسیں آئے پرسش کو ناحق
بس اب جاؤ تم سے خفا ہو گئے ہم

ہوئے محو کس کی تمنا میں ایسے
کہ مستغنئ ماسوا ہو گئے ہم

انہیں رنج اب کیوں ہوا ہم تو خوش ہیں
کہ مر کر شہید وفا ہو گئے ہم

جب ان سے ادب نے نہ کچھ منہ سے مانگا
تو اک پیکر التجا ہو گئے ہم

تری فکر کا مبتلا ہو گیا دل
مگر قید غم سے رہا ہو گئے ہم

فنا ہو کے راہ محبت میں حسرتؔ
سزاوار خلد بقا ہو گئے ہم

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse