کیا کام انہیں پرسش ارباب وفا سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا کام انہیں پرسش ارباب وفا سے
by حسرت موہانی

کیا کام انہیں پرسش ارباب وفا سے
مرتا ہے تو مر جائے کوئی ان کی بلا سے

مجھ سے بھی خفا ہو مری آہوں سے بھی برہم
تم بھی ہو عجب چیز کہ لڑتے ہو ہوا سے

دامن کو بچاتا ہے وہ کافر کہ مبادا
چھو جائے کہیں پاکئ خون شہدا سے

دیوانہ کیا ساقئ محفل نے سبھی کو
کوئی نہ بچا اس نظر ہوش ربا سے

اک یہ بھی حقیقت میں ہے شان کرم ان کی
ظاہر میں وہ رہتے ہیں جو ہر وقت خفا سے

آگاہ غم عشق نہیں وہ شہ خوباں
اور یہ بھی جو ہو جائے فقیروں کی دعا سے

قائل ہوئے رندان خرابات کے حسرتؔ
جب کچھ نہ ملا ہم کو گروہ عرفا سے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse