خو سمجھ میں نہیں آتی ترے دیوانوں کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خو سمجھ میں نہیں آتی ترے دیوانوں کی
by حسرت موہانی

خو سمجھ میں نہیں آتی ترے دیوانوں کی
دامنوں کی نہ خبر ہے نہ گریبانوں کی

جلوۂ ساغر و مینا ہے جو ہمرنگ بہار
رونقیں طرفہ ترقی پہ ہیں مے خانوں کی

ہر طرف بے خودی و بے خبری کی ہے نمود
قابل دید ہے دنیا ترے حیرانوں کی

سہل اس سے تو یہی ہے کہ سنبھالیں دل کو
منتیں کون کرے آپ کے دربانوں کی

آنکھ والے تری صورت پہ مٹے جاتے ہیں
شمع محفل کی طرف بھیڑ ہے پروانوں کی

اے جفاکار ترے عہد سے پہلے تو نہ تھی
کثرت اس درجہ محبت کے پشیمانوں کی

راز غم سے ہمیں آگاہ کیا خوب کیا
کچھ نہایت ہی نہیں آپ کے احسانوں کی

دشمن اہل مروت ہے وہ بیگانۂ انس
شکل پریوں کی ہے خو بھی نہیں انسانوں کی

ہم رہ غیر مبارک انہیں گلگشت چمن
سیر ہم کو بھی میسر ہے بیابانوں کی

اک بکھیڑا ہے نظر میں سر و سامان وجود
اب یہ حالت ہے ترے سوختہ سامانوں کی

فیض ساقی کی عجب دھوم ہے مے خانوں میں
ہر طرف مے کی طلب مانگ ہے پیمانوں کی

عاشقوں ہی کا جگر ہے کہ ہیں خرسند جفا
کافروں کی ہے یہ ہمت نہ مسلمانوں کی

یاد پھر تازہ ہوئی حال سے تیرے حسرتؔ
قیس و فرہاد کے گزرے ہوئے افسانوں کی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse