Author:آغا حجو شرف
Appearance
آغا حجو شرف (1812 - 1887) |
اردو شاعر |
تصانیف
[edit]غزل
[edit]- وہ رنگت تو نے اے گل رو نکالی
- اڑ کر سراغ کوچۂ دلبر لگائیے
- تیر نظر سے چھد کے دل افگار ہی رہا
- ترچھی نظر نہ ہو طرف دل تو کیا کروں
- تری ہوس میں جو دل سے پوچھا نکل کے گھر سے کدھر کو چلیے
- تری گلی میں جو دھونی رمائے بیٹھے ہیں
- ترے واسطے جان پہ کھلیں گے ہم یہ سمائی ہے دل میں خدا کی قسم
- تیرے عالم کا یار کیا کہنا
- تلاش قبر میں یوں گھر سے ہم نکل کے چلے
- سناٹے کا عالم قبر میں ہے ہے خواب عدم آرام نہیں
- سلف سے لوگ ان پہ مر رہے ہیں ہمیشہ جانیں لیا کریں گے
- رلوا کے مجھ کو یار گنہ گار کر نہیں
- رنگ جن کے مٹ گئے ہیں ان میں یار آنے کو ہے
- رہا کرتے ہیں یوں عشاق تیری یاد و حسرت میں
- پر نور جس کے حسن سے مدفن تھا کون تھا
- پایا ترے کشتوں نے جو میدان بیاباں
- پری پیکر جو مجھ وحشی کا پیراہن بناتے ہیں
- ناحق و حق کا انہیں خوف و خطر کچھ بھی نہیں
- موسم گل میں جو گھر گھر کے گھٹائیں آئیں
- لٹاتے ہیں وہ باغ عشق جائے جس کا جی چاہے
- کس کے ہاتھوں بک گیا کس کے خریداروں میں ہوں
- خدا معلوم کس کی چاند سے تصویر مٹی کی
- جو سامنا بھی کبھی یار خوب رو سے ہوا
- جوانی آئی مراد پر جب امنگ جاتی رہی بشر کی
- جشن تھا عیش و طرب کی انتہا تھی میں نہ تھا
- جب سے ہوا ہے عشق ترے اسم ذات کا
- عشق دہن میں گزری ہے کیا کچھ نہ پوچھئے
- الٰہی خیر جو شر واں نہیں تو یاں بھی نہیں
- ہم ہیں اے یار چڑھائے ہوئے پیمانۂ عشق
- ہوئے ایسے بہ دل ترے شیفتہ ہم دل و جاں کو ہمیشہ نثار کیا
- ہوا ہے طور بربادی جو بے دستور پہلو میں
- ہوس گل زار کی مثل عنادل ہم بھی رکھتے تھے
- گھستے گھستے پاؤں میں زنجیر آدھی رہ گئی
- گدائے دولت دیدار یار ہم بھی ہیں
- فصل گل میں ہے ارادہ سوئے صحرا اپنا
- دل کو لٹکا لیا ہے گیسو میں
- دل کو افسوس جوانی ہے جوانی اب کہاں
- درپیش اجل ہے گنج شہیداں خریدیے
- چلتے ہیں گلشن فردوس میں گھر لیتے ہیں
- چاہئیں مجھ کو نہیں زریں قفس کی پتلیاں
- بلبل کا دل خزاں کے صدمے سے ہل رہا ہے
- عالم میں ہرے ہوں گے اشجار جو میں رویا
- آگ لگا دی پہلے گلوں نے باغ میں وہ شادابی کی
Works by this author published before January 1, 1929 are in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. Translations or editions published later may be copyrighted. Posthumous works may be copyrighted based on how long they have been published in certain countries and areas. |