فصل گل میں ہے ارادہ سوئے صحرا اپنا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فصل گل میں ہے ارادہ سوئے صحرا اپنا
by آغا حجو شرف

فصل گل میں ہے ارادہ سوئے صحرا اپنا
رنگ کیا دیکھیے دکھلاتا ہے سودا اپنا

عشق میں ہم جو مٹاتے ہیں کسی کو کیا کام
جان اپنی ہے دل اپنا ہے کلیجہ اپنا

آہ ہم کرتے ہیں اے یار کے محفل والو
دونوں ہاتھوں سے جگر تھام لو اپنا اپنا

پوچھتے کیا ہو جدائی میں جو گزری گزری
تم کو معلوم ہے سب حال کہیں کیا اپنا

کوئی مشتاق رہا جلوہ کسی نے دیکھا
اس کو کیا کیجئے مقسوم ہے اپنا اپنا

زندگی شرط ہے کیا درد جگر سے ہوگا
اپنے حق میں تو دم اپنا ہے مسیحا اپنا

کام آیا عمل نیک مرا تربت میں
للہ الحمد کہ اک دوست تو نکلا اپنا

پوچھتے ہیں جو کوئی نام مرا لیتا ہے
جانتے ہیں وہ مجھے عاشق شیدا اپنا

نجد میں درد جگر قیس بیاں کرتا ہے
خوب ہی روئے گی دل تھام کے لیلیٰ اپنا

شہر سے بھاگتے ہیں دشت میں گھبراتے ہیں
دل بہلتا ہی نہیں اب تو کسی جا اپنا

ایڑیاں مجھ سے رگڑوائے گی مجنوں کی طرح
نام رکھا ہے شب وصل نے لیلیٰ اپنا

اے شرفؔ خیر تو ہے حال ہے کیوں سکتے کا
آئنہ لے کے ذرا دیکھو تو چہرا اپنا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse