فصل گل میں ہے ارادہ سوئے صحرا اپنا
فصل گل میں ہے ارادہ سوئے صحرا اپنا
رنگ کیا دیکھیے دکھلاتا ہے سودا اپنا
عشق میں ہم جو مٹاتے ہیں کسی کو کیا کام
جان اپنی ہے دل اپنا ہے کلیجہ اپنا
آہ ہم کرتے ہیں اے یار کے محفل والو
دونوں ہاتھوں سے جگر تھام لو اپنا اپنا
پوچھتے کیا ہو جدائی میں جو گزری گزری
تم کو معلوم ہے سب حال کہیں کیا اپنا
کوئی مشتاق رہا جلوہ کسی نے دیکھا
اس کو کیا کیجئے مقسوم ہے اپنا اپنا
زندگی شرط ہے کیا درد جگر سے ہوگا
اپنے حق میں تو دم اپنا ہے مسیحا اپنا
کام آیا عمل نیک مرا تربت میں
للہ الحمد کہ اک دوست تو نکلا اپنا
پوچھتے ہیں جو کوئی نام مرا لیتا ہے
جانتے ہیں وہ مجھے عاشق شیدا اپنا
نجد میں درد جگر قیس بیاں کرتا ہے
خوب ہی روئے گی دل تھام کے لیلیٰ اپنا
شہر سے بھاگتے ہیں دشت میں گھبراتے ہیں
دل بہلتا ہی نہیں اب تو کسی جا اپنا
ایڑیاں مجھ سے رگڑوائے گی مجنوں کی طرح
نام رکھا ہے شب وصل نے لیلیٰ اپنا
اے شرفؔ خیر تو ہے حال ہے کیوں سکتے کا
آئنہ لے کے ذرا دیکھو تو چہرا اپنا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |