کس کے ہاتھوں بک گیا کس کے خریداروں میں ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کس کے ہاتھوں بک گیا کس کے خریداروں میں ہوں
by آغا حجو شرف

کس کے ہاتھوں بک گیا کس کے خریداروں میں ہوں
کیا ہے کیوں مشہور میں سودائی بازاروں میں ہوں

غم نہیں جو بیڑیاں پہنے گرفتاروں میں ہوں
ناز ہے اس پر کہ تیرے ناز برداروں میں ہوں

تیرے کوچے میں جو میرا خون ہو اے لالہ رو
سرخ رو یاروں میں ہوں گل رنگ گلزاروں میں ہوں

اس قدر ہے اے پری رو زور پر جوش جنوں
سر سے توڑوں قید اگر لوہے کی دیواروں میں ہوں

عشق سے مطلب نہ تھا دل زلف میں الجھا نہ تھا
تھا جب آزادوں میں تھا اب تو گرفتاروں میں ہوں

ہوگی معشوقوں کو خواہش مجھ نحیف و زار کی
گل کریں گے آرزو میری میں ان خاروں میں ہوں

دل کو دھمکانا ہے دھیان اس نرگس بیمار کا
جان لے کر چھوڑتا ہوں میں ان آزاروں میں ہوں

اس مرے سودے کا دنیا میں ٹھکانا ہے کہیں
جان کا گاہک جو ہے اس کے خریداروں میں ہوں

کس سے پوچھوں کیا کروں صیاد کی مرضی کی بات
تازہ وارد ہوں قفس میں تو گرفتاروں میں ہوں

آرزو ہے میں وہ گل ہو جاؤں اے رشک چمن
باغ میں دن بھر رہوں شب کو ترے ہاروں میں ہوں

آ گیا دم ضیق میں لیکن نہ یہ ثابت ہوا
کون ہے عیسیٰ مرا میں کس کے بیماروں میں ہوں

ڈریے ایسی آنکھ سے جو صاف اشارے سے کہے
نرگس بیمار ہوں پر مردم آزاروں میں ہوں

دل تو میں صدقہ کروں تم اس پہ میری جان لو
تم ہی منصف ہو کہ میں ایسے گنہ گاروں میں ہوں

کون ہوں کیا ہوں کہاں ہوں میں نہیں یہ بھی خبر
خود غلط خود رفتہ ہوں میں خاک ہوشیاروں میں ہوں

ہے یہ ابرو کا اشارا تھی جہاں کی ذو الفقار
اے شرفؔ میں اس سلح خانے کی تلواروں میں ہوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse