دل کو افسوس جوانی ہے جوانی اب کہاں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل کو افسوس جوانی ہے جوانی اب کہاں
by آغا حجو شرف

دل کو افسوس جوانی ہے جوانی اب کہاں
کوئی دم میں چل بسیں گے زندگانی اب کہاں

آپ الٹتے ہیں وہ پردہ وہ کہانی اب کہاں
عاشقوں سے گفتگو ہے لن ترانی اب کہاں

جب ہمارے پاس تھے ان کو ہمارا پاس تھا
تھی ہماری قدر جب تھی قدر دانی اب کہاں

اے پری پیکر ترا میرے ہی دم تک تھا بناؤ
سرخ موباف و لباس زعفرانی اب کہاں

بد مزاجی نوجوانی نے سکھائی ہے انہیں
دشمن جاں ہو گئے ہیں مہربانی اب کہاں

یار آ نکلا تھا اے دل پھر وہ کیوں آنے لگا
ہو گیا اک یہ بھی امر ناگہانی اب کہاں

بعد میرے پھر کسی نے بھی سنی آواز یار
تھی مجھی تک لن ترانی لن ترانی اب کہاں

باغ میں نہریں بھری ہیں پھول پھل کا تھا مزا
بند ہیں کنج قفس میں دانہ پانی اب کہاں

تیری اور اپنی حقیقت جا کے عیسیٰ سے کہوں
اس قدر طاقت بھلا اے ناتوانی اب کہاں

شیفتہ جب تک نہ تھے شہرت تھی ضبط و صبر کی
درد تنہائی کی تاب اے یار جانی اب کہاں

دل میں طاقت تھی تڑپ لیتے تھے بسمل کی طرح
جان میں حالت نہیں وہ جانفشانی اب کہاں

گھور لیتے تھے جفا کاروں کو جب مفتوں نہ تھے
ہو گئے چورنگ خود چنگیز خانی اب کہاں

اپنی قدرت اس نے دکھلا دی شب معراج میں
ہو چکی بس میہمانی میہمانی اب کہاں

لہلہاتے تھے چمن مفتوں گلوں پر تھے بہار
لٹ گئی بو باس اے برگ خزانی اب کہاں

حال دل کہواتے تھے جب فاسد آتے جاتے تھے
نامۂ شوق اور پیغام زبانی اب کہاں

داغ دل اس نے دیا تھا دل کو ہم نے کھو دیا
اے شرفؔ اس بے مروت کی نشانی اب کہاں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse