رلوا کے مجھ کو یار گنہ گار کر نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رلوا کے مجھ کو یار گنہ گار کر نہیں
by آغا حجو شرف

رلوا کے مجھ کو یار گنہ گار کر نہیں
آنکھیں ہیں تر تو ہوں مرا دامن تو تر نہیں

امید وصل سے بھی تو صدمہ نہ کم ہوا
کیا درد جائے گا جو دوا کا اثر نہیں

دن کو بھی داغ دل کی نہ کم ہوگی روشنی
یہ لو ہی اور ہے یہ چراغ سحر نہیں

تنہا چلیں ہیں معرکۂ عشق جھیلنے
ان کی طرف خدائی ہے کوئی ادھر نہیں

خالی صفائی قلب سے بہتر ہے داغ عشق
کیا عیب ہے کہ جس کے مقابل ہنر نہیں

قاتل کی راہ دیکھ لے دم بھر نہ زہر کھا
اے دل قضا کو آنے دے بے موت مر نہیں

کیوں کر یہاں نہ ایک ہی کروٹ پڑا رہوں
ہو کا مقام گور کی منزل ہے گھر نہیں

رن کھن پڑیں گے جب کہیں دکھلائے گا وہ شکل
بے کشت خوں ہوئی یہ مہم ہو کے سر نہیں

آنکھیں جھپک رہی ہیں مری برق حسن سے
پیش نظر ہو تم مجھے تاب نظر نہیں

یارو بتاؤ کس طرف آنکھیں بچھاؤں میں
اس شوخ کی کدھر کو ہے آمد کدھر نہیں

بندہ نواز سب ہیں رکوع و سجود میں
طاعت سے غافل آپ کی کوئی بشر نہیں

پریوں کے پاس جاؤں میں کیوں دل کو بیچنے
سودا جو مول لوں یہ مجھے درد سر نہیں

درد فراق یار سے دونوں ہیں بے قرار
قابو میں دل نہیں متحمل جگر نہیں

راہ عدم میں ساتھ رہے گی تری ہوس
پروا نہیں نہ ہو جو کوئی ہم سفر نہیں

خلوت سرائے یار میں پہنچے گا کیا کوئی
وہ بند و بست ہے کہ ہوا کا گزر نہیں

اٹھوا کے اپنی بزم سے دل کو مرے نہ توڑ
پہلو میں دے کے جا مجھے برباد کر نہیں

ہستی کدھر ہے عالم ارواح ہے کہاں
غفلت زدہ ہوں مجھ کو کہیں کی خبر نہیں

زنجیر اتر گئی ترا دیوانہ مر گیا
سناٹا قید خانے میں ہے شور و شر نہیں

چندرا کے مجھ کو بولے وہ آخر جو شب ہوئی
فق ہو گیا ہے رنگ کسی کا سحر نہیں

برپا ہے حشر و نشر جو رفتار یار سے
یہ کون سا چلن ہے قیامت اگر نہیں

در نجف تو جسم ہے اس نازنین کا
موئے نجف میں بال پڑا ہے کمر نہیں

دیدار کا لگا کے میں آیا ہوں آسرا
امیدوار ہوں مجھے مایوس کر نہیں

یارو ستم ہوا ہوئی آخر شب وصال
سینہ شرفؔ یہ کوٹ رہے ہیں گجر نہیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.