رلوا کے مجھ کو یار گنہ گار کر نہیں
رلوا کے مجھ کو یار گنہ گار کر نہیں
آنکھیں ہیں تر تو ہوں مرا دامن تو تر نہیں
امید وصل سے بھی تو صدمہ نہ کم ہوا
کیا درد جائے گا جو دوا کا اثر نہیں
دن کو بھی داغ دل کی نہ کم ہوگی روشنی
یہ لو ہی اور ہے یہ چراغ سحر نہیں
تنہا چلیں ہیں معرکۂ عشق جھیلنے
ان کی طرف خدائی ہے کوئی ادھر نہیں
خالی صفائی قلب سے بہتر ہے داغ عشق
کیا عیب ہے کہ جس کے مقابل ہنر نہیں
قاتل کی راہ دیکھ لے دم بھر نہ زہر کھا
اے دل قضا کو آنے دے بے موت مر نہیں
کیوں کر یہاں نہ ایک ہی کروٹ پڑا رہوں
ہو کا مقام گور کی منزل ہے گھر نہیں
رن کھن پڑیں گے جب کہیں دکھلائے گا وہ شکل
بے کشت خوں ہوئی یہ مہم ہو کے سر نہیں
آنکھیں جھپک رہی ہیں مری برق حسن سے
پیش نظر ہو تم مجھے تاب نظر نہیں
یارو بتاؤ کس طرف آنکھیں بچھاؤں میں
اس شوخ کی کدھر کو ہے آمد کدھر نہیں
بندہ نواز سب ہیں رکوع و سجود میں
طاعت سے غافل آپ کی کوئی بشر نہیں
پریوں کے پاس جاؤں میں کیوں دل کو بیچنے
سودا جو مول لوں یہ مجھے درد سر نہیں
درد فراق یار سے دونوں ہیں بے قرار
قابو میں دل نہیں متحمل جگر نہیں
راہ عدم میں ساتھ رہے گی تری ہوس
پروا نہیں نہ ہو جو کوئی ہم سفر نہیں
خلوت سرائے یار میں پہنچے گا کیا کوئی
وہ بند و بست ہے کہ ہوا کا گزر نہیں
اٹھوا کے اپنی بزم سے دل کو مرے نہ توڑ
پہلو میں دے کے جا مجھے برباد کر نہیں
ہستی کدھر ہے عالم ارواح ہے کہاں
غفلت زدہ ہوں مجھ کو کہیں کی خبر نہیں
زنجیر اتر گئی ترا دیوانہ مر گیا
سناٹا قید خانے میں ہے شور و شر نہیں
چندرا کے مجھ کو بولے وہ آخر جو شب ہوئی
فق ہو گیا ہے رنگ کسی کا سحر نہیں
برپا ہے حشر و نشر جو رفتار یار سے
یہ کون سا چلن ہے قیامت اگر نہیں
در نجف تو جسم ہے اس نازنین کا
موئے نجف میں بال پڑا ہے کمر نہیں
دیدار کا لگا کے میں آیا ہوں آسرا
امیدوار ہوں مجھے مایوس کر نہیں
یارو ستم ہوا ہوئی آخر شب وصال
سینہ شرفؔ یہ کوٹ رہے ہیں گجر نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |