ہوا ہے طور بربادی جو بے دستور پہلو میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہوا ہے طور بربادی جو بے دستور پہلو میں
by آغا حجو شرف

ہوا ہے طور بربادی جو بے دستور پہلو میں
دل بے تاب کو رہتا ہے نامنظور پہلو میں

عجب دل کو لگی ہے لو عجب ہے نور پہلو میں
کیا ہے عشق نے روشن چراغ طور پہلو میں

کہا جو میں نے میرے دل کی اک تصویر کھنچوا دو
منگا کر رکھ دیا اک شیشہ چکناچور پہلو میں

خوشی ہو ہو کے الفت میں جو بار غم اٹھاتا ہے
دل شیدا ہے یا ہے عشق کا مزدور پہلو میں

ہوس ہے دل کو تیرے ہاتھ سے مجروح ہونے کی
لگا دے اک چھری اے قاتل مغرور پہلو میں

ہم آغوشی سے جب سے یار نے پہلو تہی کی ہے
اسی دن سے ہوئی ہے بے کلی مامور پہلو میں

تری تصویر جب میں ڈھونڈنے اٹھتا ہوں جنت میں
بٹھا لیتی ہے منت کر کے مجھ کو حور پہلو میں

تڑپ جاتا ہے دل تیری جدائی یاد آتی ہے
چمک جاتا ہے یارب کس پری کا نور پہلو میں

تصدق تجھ پہ جس دم نجد میں ہو جائے گا مجنوں
جگہ دے گا ترا دیوانۂ مغفور پہلو میں

خدنگ ناز کی آمد پر آمد اس میں رہتی ہے
یہ باب دلکشا ہے یا کہ ہے ناسور پہلو میں

الٰہی میرے اس کے وہ ہم آغوشی کی صورت ہو
کہ جیسے دل کی ہے پیچیدگی مشہور پہلو میں

ہوا اس درجہ غلبہ اس پہ ٹھنڈی ٹھنڈی سانسوں کا
کہ آخر دل ہمارا ہو گیا کافور پہلو میں

نئی تیر لب معشوق نے کی رخنہ پردازی
تسلط تو کیا دل میں ہوا ناسور پہلو میں

برابر اپنے بیٹھے دیکھا ہے یوسف کو رویا میں
خدا چاہے تو آ بیٹھے وہ رشک حور پہلو میں

مسلم اس کے ہونے کی شرفؔ تدبیر بتلاؤ
پڑا ہے مدتوں سے شیشۂ دل چور پہلو میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse