سناٹے کا عالم قبر میں ہے ہے خواب عدم آرام نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سناٹے کا عالم قبر میں ہے ہے خواب عدم آرام نہیں
by آغا حجو شرف

سناٹے کا عالم قبر میں ہے ہے خواب عدم آرام نہیں
امکان نمود صبح نہیں امید چراغ شام نہیں

دل نامے کے شک لے پرزے کیا اے وائے نصیبے کا یہ لکھا
پیشانی پر ان کی مہر نہیں سر نامے پہ میرا نام نہیں

جاتے ہیں جو اجڑے زندہ چمن اس باغ جہاں کی وجہ یہ ہے
گل زار یہ جس گلفام کا ہے اس باغ میں وہ گلفام نہیں

بچھ جائیں گے بلبل آ کے ہزاروں ٹوٹ پڑیں گے جعل یہ ہے
صیاد گلابی پہنے ہے کپڑے چادر گل ہے دام نہیں

اس نجد میں خوف اے لیلیٰ نہ کر اس غمزدہ کی لے جا کے خبر
مجنوں سے ترا وحشی ہے ترا بے چارہ کوئی ضرغام نہیں

آگاہ کیا ہے دل کو ہمارے کس نے تمہاری خوبیوں سے
انصاف کرو منصف ہو تمہیں پھر کیا ہے جو یہ الہام نہیں

دل دیتے ہی ان کو گھلنے لگے نظروں میں اجل کے تلنے لگے
آغاز محبت سے یہ کھلا چاہت کا بخیر انجام نہیں

عالم ہے عجب گیتئ عدم کا چار طرف ہے عالم ہو
آسائش جان و روح نہیں راحت کا کوئی ہنگام نہیں

جانا ہے عدم کی راہ ہمیں ہونا ہے فنا فی اللہ ہمیں
لیتے ہیں یہاں دم چند نفس ہستی سے ہمیں کچھ کام نہیں

پھر آنکھ کبھی کھلنے کی نہیں نیند آئے گی اک دن ایسی ہمیں
ہونا ہے یہی سوچے ہیں جو ہم یہ خواب و خیال خام نہیں

چورنگ نہیں کیوں کھیلتے اب کس کشتے پہ رحم آیا ہے تمہیں
خوں ریزیوں کا کیوں شوق نہیں کیوں زیب کمر صمصام نہیں

اقلیم خموشاں سے تو سدا اک غمزدہ آتی ہے یہ صدا
ہیں سیکڑوں شاہنشاہ یہاں پر حکم نہیں احکام نہیں

دنیا میں جو تھا تابع تھا جہاں معلوم نہیں پہونچا وہ کہاں
عبرت کا محل کہتے ہیں اسے اب گور میں بھی بہرام نہیں

بلبل کی فغاں پر خندہ زنی غنچوں نے جو کی پژمردہ ہوئے
سچ ہے کہ حزین و غمزدہ ہو ہنسنے کا بخیر انجام نہیں

دیدار کے بھوکے تیرے جو ہیں ہے ختم انہیں پر نفس کشی
کچھ خواہش و فکر فوت نہیں دنیا کے مزے سے کام نہیں

تم قبر میں کیوں اٹھ بیٹھے شرفؔ آرام کرو آرام کرو
یاران وطن روتے ہیں تمہیں کچھ حشر نہیں کہرام نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse