سناٹے کا عالم قبر میں ہے ہے خواب عدم آرام نہیں
سناٹے کا عالم قبر میں ہے ہے خواب عدم آرام نہیں
امکان نمود صبح نہیں امید چراغ شام نہیں
دل نامے کے شک لے پرزے کیا اے وائے نصیبے کا یہ لکھا
پیشانی پر ان کی مہر نہیں سر نامے پہ میرا نام نہیں
جاتے ہیں جو اجڑے زندہ چمن اس باغ جہاں کی وجہ یہ ہے
گل زار یہ جس گلفام کا ہے اس باغ میں وہ گلفام نہیں
بچھ جائیں گے بلبل آ کے ہزاروں ٹوٹ پڑیں گے جعل یہ ہے
صیاد گلابی پہنے ہے کپڑے چادر گل ہے دام نہیں
اس نجد میں خوف اے لیلیٰ نہ کر اس غمزدہ کی لے جا کے خبر
مجنوں سے ترا وحشی ہے ترا بے چارہ کوئی ضرغام نہیں
آگاہ کیا ہے دل کو ہمارے کس نے تمہاری خوبیوں سے
انصاف کرو منصف ہو تمہیں پھر کیا ہے جو یہ الہام نہیں
دل دیتے ہی ان کو گھلنے لگے نظروں میں اجل کے تلنے لگے
آغاز محبت سے یہ کھلا چاہت کا بخیر انجام نہیں
عالم ہے عجب گیتئ عدم کا چار طرف ہے عالم ہو
آسائش جان و روح نہیں راحت کا کوئی ہنگام نہیں
جانا ہے عدم کی راہ ہمیں ہونا ہے فنا فی اللہ ہمیں
لیتے ہیں یہاں دم چند نفس ہستی سے ہمیں کچھ کام نہیں
پھر آنکھ کبھی کھلنے کی نہیں نیند آئے گی اک دن ایسی ہمیں
ہونا ہے یہی سوچے ہیں جو ہم یہ خواب و خیال خام نہیں
چورنگ نہیں کیوں کھیلتے اب کس کشتے پہ رحم آیا ہے تمہیں
خوں ریزیوں کا کیوں شوق نہیں کیوں زیب کمر صمصام نہیں
اقلیم خموشاں سے تو سدا اک غمزدہ آتی ہے یہ صدا
ہیں سیکڑوں شاہنشاہ یہاں پر حکم نہیں احکام نہیں
دنیا میں جو تھا تابع تھا جہاں معلوم نہیں پہونچا وہ کہاں
عبرت کا محل کہتے ہیں اسے اب گور میں بھی بہرام نہیں
بلبل کی فغاں پر خندہ زنی غنچوں نے جو کی پژمردہ ہوئے
سچ ہے کہ حزین و غمزدہ ہو ہنسنے کا بخیر انجام نہیں
دیدار کے بھوکے تیرے جو ہیں ہے ختم انہیں پر نفس کشی
کچھ خواہش و فکر فوت نہیں دنیا کے مزے سے کام نہیں
تم قبر میں کیوں اٹھ بیٹھے شرفؔ آرام کرو آرام کرو
یاران وطن روتے ہیں تمہیں کچھ حشر نہیں کہرام نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |