دل کو لٹکا لیا ہے گیسو میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل کو لٹکا لیا ہے گیسو میں
by آغا حجو شرف

دل کو لٹکا لیا ہے گیسو میں
جب وہ بیٹھیں ہیں آ کے پہلو میں

ڈبڈباتے ہی آنکھیں پتھرائی
کیا ہی حسرت بھری تھی آنسو میں

سرکشی کی جو بوئے گیسو نے
چھپ رہا مشک ناف آہو میں

زندگی بھر کریں گے اس کی تلاش
چل بسیں گے اسی تکابو میں

درد دل روئی سے نہ سکوانا
آگ ہے اس طرف کے پہلو میں

کون کہتا ہے خال مشکیں ہے
دل ہے کسریٰ کا طاق ابرو میں

بزم میں ان کی جب گئے ہیں ہم
عطر بھر بھر دیا ہے چلو میں

بلبلوں میں ہمارا دل ہوگا
روح ہوگی گلوں کی خوشبو میں

دل تو تھا اختیار سے باہر
اب جگر بھی نہیں ہے قابو میں

بحر غم میں مریں گے ڈوب کے ہم
قبر اک دن بنے گی ٹاپو میں

خوں رلاتی ہیں انکھڑیاں تیری
ایک ہی ہیں یہ دونوں جادو میں

حوریں پاسنگ کی کریں گی ہوس
مل وہ بیٹھیں گے جس ترازو میں

کس کو غش آ گیا جو چھڑکو گے
کیوں بھرا ہے گلاب چلو میں

عالم وجد دل کو رہتا ہے
مست ہیں نعرہ ہائے یاہو میں

اے شرفؔ جب مزا ہے رونے کا
نکلیں لخت جگر بھی آنسو میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse