گھستے گھستے پاؤں میں زنجیر آدھی رہ گئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گھستے گھستے پاؤں میں زنجیر آدھی رہ گئی
by آغا حجو شرف

گھستے گھستے پاؤں میں زنجیر آدھی رہ گئی
آدھی چھٹنے کی ہوئی تدبیر آدھی رہ گئی

نیم بسمل ہو کے میں تڑپا تو وہ کہنے لگے
چوک تجھ سے ہو گئی تعزیر آدھی رہ گئی

شام سے تھی آمد آمد نصف شب کو آئے وہ
یاوری کر کے مری تقدیر آدھی رہ گئی

نصف شہر اس گیسوئے مشکیں نے دل بستہ کیا
خسرو تاتار کی توقیر آدھی رہ گئی

چودھویں شب نا مبارک ماہ کامل کو ہوئی
نصف منصب ہو گیا جاگیر آدھی رہ گئی

تیز کب تک ہوگی کب تک باڑھ رکھی جائے گی
اب تو اے قاتل تری شمشیر آدھی رہ گئی

آدھے دھڑ کا دم نکلتا تھا کہ آیا خط شوق
پڑھتے پڑھتے مر گئے تحریر آدھی رہ گئی

رنگ پھرنے بھی نہ پایا تھا کہ خود رفتہ ہوا
بن کے مانیؔ سے تری تصویر آدھی رہ گئی

نصف شب تک دی تسلی پھر وہ یوسف اٹھ گیا
خواب حسرت کی مری تعبیر آدھی رہ گئی

خود کہا قاتل سے میں نے پھر دوبارہ ذبح کر
کٹ کے جب گردن دم تکبیر آدھی رہ گئی

دوپہر رات آ چکی جب گفتگو کی عشق کی
یار سے آدھی ہوئی تقریر آدھی رہ گئی

امتحان میں کندنی رنگ ان کا دونا ہو گیا
اڑتے اڑتے سرخیٔ اکسیر آدھی رہ گئی

اے پری رو جلد زنداں میں شرفؔ کی لے خبر
ٹکڑے کر کے پھینک دی زنجیر آدھی رہ گئی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse