پایا ترے کشتوں نے جو میدان بیاباں
پایا ترے کشتوں نے جو میدان بیاباں
شان چمن خلد ہوئی شان بیاباں
دیوانہ ترا مر کے ہوا زندۂ جاوید
روح اس کی جو نکلی تو ہوئی جان بیاباں
مجھ سا بھی جہاں میں کوئی سودائی نہ ہوگا
سمجھا لحد قیس کو ایوان بیاباں
ویرانہ نشینی ہے ازل سے مری جاگیر
قسمت نے دیا ہے مجھے فرمان بیاباں
وحشت پہ مری آہوؤں کے بہتے ہیں آنسو
حیرت پہ مری روتے ہیں حیوان بیاباں
ہے عالم ہو تربت مجنوں کا مجاور
سناٹے کا عالم ہے نگہبان بیاباں
جس روز مرے ہوش کے ہمراہ اڑیں گے
دم توڑ کے مر جائیں گے مرغان بیاباں
اک دن ہی یہ موقوف ہوا خاک کا اڑنا
کیا کیا نہ کیا قیس نے سامان بیاباں
پروا نہ تھی بستی کی نہ تھی یاد وطن کی
اللہ رے مدہوشی و نسیان بیاباں
رہتے ہیں مرے گرد پری زاد ہزاروں
ہوں عالم وحشت میں سلیمان بیاباں
لیلیٰ پہ جو عالم ہے تو مجنوں بھی ہے خوش رو
وہ حور بیاباں ہے وہ غلمان بیاباں
اس طبقے کی منظور جو کی تم نے تباہی
بربادی ہوئی دست و گریبان بیاباں
افسوس ہے اس نجد کو مجنوں نے بسایا
لیلیٰ جسے کہتی ہے بیابان بیاباں
دل کھول کے جی چاہتا ہے خاک اڑاؤں
پھرنے کو ملا ہے مجھے میدان بیاباں
جس دن سے بنی ہے ترے دیوانے کی تربت
ہوتے ہیں پری زاد بھی قربان بیاباں
شیروں کے ہلا ڈالے ہیں دل اس کے جنوں نے
مجنوں ہے کہ ہے رستم دستان بیاباں
جس وقت شرفؔ لیلیٰ و مجنوں نے قضا کی
اک غل ہوا رخصت ہوے مہمان بیاباں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |