ترچھی نظر نہ ہو طرف دل تو کیا کروں
ترچھی نظر نہ ہو طرف دل تو کیا کروں
لیلیٰ کے ناپسند ہو محمل تو کیا کروں
ٹھہرے نہ خوں بہا سوئے قاتل تو کیا کروں
حق ہو جو خود بخود مرا باطل تو کیا کروں
اک رنگ کو جہاں میں نہیں کوئی مانتا
ہر رنگ میں رہوں نہ میں شامل تو یا کروں
پسواؤں بے گناہ جو دل کو حنا کے ساتھ
پرسان حال ہو کوئی عادل تو کیا کروں
پروانہ ہونے کی بھی اجازت نہیں مجھے
عالم فریب ہے تری محفل تو کیا کروں
جاتا گلو بریدہ بھی اڑ کر گلوں کے پاس
بازو گیا ہے توڑ کے بسمل تو کیا کروں
لیلہ یہ کہہ کے جلوہ دکھاتی ہے قیس کو
اڑنے لگے جو پردۂ محمل تو کیا کروں
خود چاہتا ہوں ضبط کروں درد شوق میں
دل ہی مرا نہ ہو متحمل تو کیا کروں
منہ چوم لوں کہ گرد پھروں دوڑ دوڑ کے
اے دل جو ہاتھ روک لے قاتل تو کیا کروں
دم راہ شوق و ذوق میں لیتا نہیں کہیں
اس پر بھی طے نہ ہو جو یہ منزل تو کیا کروں
کیوں کر نہ جبر دل پہ کروں اپنے اختیار
راحت میں آ پڑے کوئی مشکل تو کیا کروں
اک اک سے پوچھتے ہیں وہ آئینہ دیکھ کر
معشوق پاؤں پیار کے قابل تو کیا کروں
دے دوں میں راہ عشق میں جان اس کے نام پر
ناچار ہوں نہ ہو کوئی سائل تو کیا کروں
ٹانکے جگر کے زخم میں کیوں کر لگانے دوں
گل تیرے باغ کا ہو مقابل تو کیا کروں
آنے کو منع کرتے ہو اچھا نہ آؤں گا
یہ تو کہو نہ مانے مرا دل تو کیا کروں
شاید مجھے جمال دکھا دے وہ اے کلیم
نظارے کا نہ ہوں متحمل تو کیا کروں
مر جاؤں ڈوب کر شرفؔ اس پار یار ہے
کشتی نہ ہو کوئی لب ساحل تو کیا کروں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |