جو سامنا بھی کبھی یار خوب رو سے ہوا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جو سامنا بھی کبھی یار خوب رو سے ہوا
by آغا حجو شرف

جو سامنا بھی کبھی یار خوب رو سے ہوا
زمانے بھر کا یرش مجھ پہ چار سو سے ہوا

کہا اشاروں سے میں نے کہ تم پہ مرتا ہوں
جو نطق بند مرا ان کی گفتگو سے ہوا

کسی کو بھی نہ ہوس تھی حلال ہونے کی
رواج شوق شہادت مرے گلو سے ہوا

جدھر نگاہ کی جلوہ ترا نظر آیا
کمال کشف مجھے تیری آرزو سے ہوا

کھلا نہ حال کسی پر کہ کیا مزاج میں ہے
خدائی میں کوئی واقف نہ اس کی خو سے ہوا

عجب گھڑی سے گریباں پھٹا تھا مجنوں کا
تمام عمر نہ واقف کبھی رفو سے ہوا

بڑے بڑوں کو لگایا نہ منہ کبھی میں نے
وہ ظرف ہوں کہ نہ واقف کبھی سبو سے ہوا

وہ خود بھی کر گئے تر آنسوؤں سے تربت کو
گلی میں یار کی مدفون اس آبرو سے ہوا

بہار باغ کو آئے جو دیکھنے بے یار
دماغ اور پریشاں گلوں کی بو سے ہوا

چڑھائے گور غریباں پہ گل جو اس گل نے
چمن بہشت کا پیدا مقام ہو سے ہوا

حلال ہونے کو صیاد سے محبت کی
قضا جو آئی تو مانوس میں عدو سے ہوا

خدائی کرنے لگا یار بے نیازی سے
بڑا غرور اسے میری آرزو سے ہوا

جہاں سے محفل معراج میں ہوئی طلبی
بشر کا مرتبہ یہ اس کی جستجو سے ہوا

لگاتے ہیں جو سب آنکھوں سے آب زمزم کو
شرفؔ یہ فیض کا چشمہ مری وضو سے ہوا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse