موسم گل میں جو گھر گھر کے گھٹائیں آئیں
موسم گل میں جو گھر گھر کے گھٹائیں آئیں
ہوش اڑ جاتے ہیں جن سے وہ ہوائیں آئیں
چل بسے سوئے عدم تم نے بلایا جن کو
یاد آئی تو غریبوں کی قضائیں آئیں
روح تازی ہوئی تربت میں وہ ٹھنڈی ٹھنڈی
باغ فردوس کی ہر سو سے ہوائیں آئیں
میں وہ دیوانہ تھا جس کے لیے بزم غم میں
جا بجا بچھنے کو پریوں کی ردائیں آئیں
منکر ظلم جو جلاد ہوئے محشر میں
خود گواہی کے لیے سب کی جفائیں آئیں
مجرموں ہی کو نہیں ظلم کا فرمان آیا
بے گناہوں کو بھی لکھ لکھ کے سزائیں آئیں
اس کا دیوانہ ہوں سمجھاتی ہیں پریاں مجھ کو
سر پھرانے کو کہاں سے یہ بلائیں آئیں
ترے بندے ہوے کی جن سے لگاوٹ تو نے
اے پری رو تجھے کیوں کر یہ ادائیں آئیں
حشر موقوف کیا جوش میں رحمت آئی
زار نالے کی جو ہر سو سے صدائیں آئیں
لشکر گل جو گلستاں میں خزاں پر امڈا
ساتھ دینے کو پہاڑوں سے گھٹائیں آئیں
میری تربت پہ کبھی دھوپ نہ آنے پائے
شام تک صبح سے گھر گھر کے گھٹائیں آئیں
منہ چھپانے لگے معشوق جواں ہو ہو کر
نیک و بد کی سمجھ آئی تو حیائیں آئیں
خاک اڑانے جو صبا آئی مری تربت پر
سر پٹکتی ہوئی رونے کو گھٹائیں آئیں
بخش دی اس نے مرے بعد جو پوشاک مری
قیس و فرہاد کے حصوں میں قبائیں آئیں
راحتیں سمجھے حسینوں نے جو ایذائیں دیں
پیار آیا تو پسند ان کی جفائیں آئیں
آ گیا رحم اسے دیں سب کی مرادیں اس نے
عاجزوں کی جو سفارش کو دعائیں آئیں
میرے صحرا کی زیارت کو ہزاروں پریاں
روز لے لے کے سلیمان کو رضائیں آئیں
اے شرفؔ حسن پرستوں کو بلا کے لوٹا
ان حسینوں کے دلوں میں جو دغائیں آئیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |