موسم گل میں جو گھر گھر کے گھٹائیں آئیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
موسم گل میں جو گھر گھر کے گھٹائیں آئیں
by آغا حجو شرف

موسم گل میں جو گھر گھر کے گھٹائیں آئیں
ہوش اڑ جاتے ہیں جن سے وہ ہوائیں آئیں

چل بسے سوئے عدم تم نے بلایا جن کو
یاد آئی تو غریبوں کی قضائیں آئیں

روح تازی ہوئی تربت میں وہ ٹھنڈی ٹھنڈی
باغ فردوس کی ہر سو سے ہوائیں آئیں

میں وہ دیوانہ تھا جس کے لیے بزم غم میں
جا بجا بچھنے کو پریوں کی ردائیں آئیں

منکر ظلم جو جلاد ہوئے محشر میں
خود گواہی کے لیے سب کی جفائیں آئیں

مجرموں ہی کو نہیں ظلم کا فرمان آیا
بے گناہوں کو بھی لکھ لکھ کے سزائیں آئیں

اس کا دیوانہ ہوں سمجھاتی ہیں پریاں مجھ کو
سر پھرانے کو کہاں سے یہ بلائیں آئیں

ترے بندے ہوے کی جن سے لگاوٹ تو نے
اے پری رو تجھے کیوں کر یہ ادائیں آئیں

حشر موقوف کیا جوش میں رحمت آئی
زار نالے کی جو ہر سو سے صدائیں آئیں

لشکر گل جو گلستاں میں خزاں پر امڈا
ساتھ دینے کو پہاڑوں سے گھٹائیں آئیں

میری تربت پہ کبھی دھوپ نہ آنے پائے
شام تک صبح سے گھر گھر کے گھٹائیں آئیں

منہ چھپانے لگے معشوق جواں ہو ہو کر
نیک و بد کی سمجھ آئی تو حیائیں آئیں

خاک اڑانے جو صبا آئی مری تربت پر
سر پٹکتی ہوئی رونے کو گھٹائیں آئیں

بخش دی اس نے مرے بعد جو پوشاک مری
قیس و فرہاد کے حصوں میں قبائیں آئیں

راحتیں سمجھے حسینوں نے جو ایذائیں دیں
پیار آیا تو پسند ان کی جفائیں آئیں

آ گیا رحم اسے دیں سب کی مرادیں اس نے
عاجزوں کی جو سفارش کو دعائیں آئیں

میرے صحرا کی زیارت کو ہزاروں پریاں
روز لے لے کے سلیمان کو رضائیں آئیں

اے شرفؔ حسن پرستوں کو بلا کے لوٹا
ان حسینوں کے دلوں میں جو دغائیں آئیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse