جب سے ہوا ہے عشق ترے اسم ذات کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جب سے ہوا ہے عشق ترے اسم ذات کا
by آغا حجو شرف

جب سے ہوا ہے عشق ترے اسم ذات کا
آنکھوں میں پھر رہا ہے مرقع نجات کا

مالک ہی کے سخن میں تلون جو پائیے
کہئے یقین لائیے پھر کس کی بات کا

دفتر ہماری عمر کا دیکھو گے جب کبھی
فوراً اسے کرو گے مرقع نجات کا

الفت میں مر مٹے ہیں تو پوچھے ہی جائیں گے
اک روز لطف اٹھائیں گے اس واردات کا

سرخی کی خط شوق میں حاجت جہاں ہوئی
خون جگر میں نوک ڈبویا دوات کا

موجد جو نور کا ہے وہ میرا چراغ ہے
پروانہ ہوں میں انجمن کائنات کا

اے شمع بزم یار وہ پروانہ کون تھا
لو میں تری یہ داغ ہے جس کی وفات کا

مجھ سے تو لن ترانیاں اس نے کبھی نہ کیں
موسی جواب دے نہ سکے جس کی بات کا

اس بے خودی کا دیں گے خدا کو وہ کیا جواب
دم بھرتے ہیں جو چند نفس کے حباب کا

قدسی ہوے مطیع وہ طاعت بشر نے کی
کل اختیار حق نے دیا کائنات کا

ایسا عتاب نامہ تو دیکھا سنا نہیں
آیا ہے کس کے واسطے سورہ برات کا

ذی روح مجھ کو تو نے کیا مشت خاک سے
بندہ رہوں گا میں ترے اس التفات کا

ناچیز ہوں مگر میں ہوں ان کا فسانہ گو
قرآن حمد نامہ ہے جن کی صفات کا

رویا ہے میرا دیدۂ تر کس شہید کو
مشہور ہو گیا ہے جو چشمہ فرات کا

آئے تو آئے عالم ارواح سے وہاں
دم بھر جہاں نہیں ہے بھروسا ثبات کا

دھوم اس کے حسن کی ہے دو عالم میں اے شرفؔ
خورشید روز کا ہے وہ مہتاب رات کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse