ہم ہیں اے یار چڑھائے ہوئے پیمانۂ عشق

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہم ہیں اے یار چڑھائے ہوئے پیمانۂ عشق
by آغا حجو شرف

ہم ہیں اے یار چڑھائے ہوئے پیمانۂ عشق
ترے متوالے ہیں مشہور ہیں مستانۂ عشق

دشمنوں میں بھی رہا ربط محبت برسوں
خوش نہ آیا کسی معشوق کو یارانۂ عشق

مجھ کو جو چاہ محبت کی ہے مجنوں کو کہاں
اس کو لیلیٰ ہی کا سودا ہے میں دیوانۂ عشق

جان لیں گے کہ وہ دل لیں گے جنہیں چاہا ہے
دیکھیے کرتے ہیں کیا آ کے وہ جرمانۂ عشق

جا بہ جا چاہنے والوں کا جو مجمع دیکھا
کوچۂ یار کو سمجھا میں جلو خانۂ عشق

سالہا سال سے خوش باش جو ہوں صحرا میں
عالم ہو کو سمجھتا ہوں میں ویرانۂ عشق

دل پسا چاہتا ہے جا کے حنا پر اس کی
خرمن حسن ہوا چاہتا ہے دانۂ عشق

دل کا ہے قصد تری بزم میں اڑ کر جاؤں
کیا ہی بے پر کی اڑاتا ہے یہ پروانۂ عشق

ہر پری زاد کی ہے جلوہ نما اک تصویر
شیشۂ دل ہے ہمارا کہ پری خانۂ عشق

دل مرا خاص مکاں ہے جو تری الفت کا
کہتی ہے ساری خدائی اسے کاشانۂ عشق

کون کس کا شب معراج میں ہوگا معشوق
کی ہے کس شوخ نے یہ محفل شاہانۂ عشق

تو کرے ناز تجھے یار زمانہ چاہے
تا ابد یہ رہے آباد ترا خانۂ عشق

اس پری رو نے جو دیکھا مرے دل کو صدچاک
اپنی زلفوں میں کیا نام ہوا شانۂ عشق

عالم نور تری شکل کا پروانہ ہے
حسن کی جان ہے تو اور ہے جانانۂ عشق

سر بکف گنج شہیداں میں چلے جاتے ہیں
امتحاں سے نہیں ڈرتے ترے فرزانۂ عشق

نزع میں سورۂ یوسف کوئی للہ پڑھے
دم بھی نکلے تو مروں سن کے میں افسانۂ عشق

ڈبڈبائیں مری آنکھیں تو وہ کیا کہتے ہیں
دیکھو لبریز ہیں چھلکیں گے یہ پیمانۂ عشق

اے شرفؔ کون مرے دل کے مقابل ہوگا
اک یہی ساری خدائی میں ہے مردانۂ عشق

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse